اسی حالت میں
جیسی اب ہے اسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا
کھل کے رو بھی سکوں اور ہنس بھی سکوں جی بھر کے
ابھی اتنی بھی فراغت میں نہیں رہ سکتا
دل سے باہر نکل آنا مری مجبوری ہے
میں تو اس شور قیامت میں نہیں رہ سکتا
کوچ کر جائیں جہاں سے مرے دشمن اے دوست
میں وہاں بھی کسی صورت میں نہیں رہ سکتا
کوئی خطرہ ہے مجھے اور طرح کا اے دوست
میں جو اب تیری حفاظت میں نہیں رہ سکتا
چاہیئے ہے مجھے کچھ اور ہی ماحول کہ میں
اور اب اپنی رفاقت میں نہیں رہ سکتا
کچھ بھی میں کرتا کراتا تو نہیں ہوں لیکن
باوجود اس کے فراغت میں نہیں رہ سکتا
شک مجھے یوں تو خیانت کا نہیں ہے کوئی
میں کسی کی بھی امانت میں نہیں رہ سکتا
ویسے رہنے کو تو خوش باش ہی رہتا ہوں ظفرؔ
سچ جو پوچھیں تو حقیقت میں نہیں رہ سکتا
ظفر اقبال
Zeba Islam
14-Dec-2021 11:45 AM
Nice
Reply