Orhan

Add To collaction

اسی حالت میں

جیسی اب ہے اسی حالت میں نہیں رہ سکتا

میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا

کھل کے رو بھی سکوں اور ہنس بھی سکوں جی بھر کے

ابھی اتنی بھی فراغت میں نہیں رہ سکتا

دل سے باہر نکل آنا مری مجبوری ہے

میں تو اس شور قیامت میں نہیں رہ سکتا

کوچ کر جائیں جہاں سے مرے دشمن اے دوست

میں وہاں بھی کسی صورت میں نہیں رہ سکتا

کوئی خطرہ ہے مجھے اور طرح کا اے دوست

میں جو اب تیری حفاظت میں نہیں رہ سکتا

چاہیئے ہے مجھے کچھ اور ہی ماحول کہ میں

اور اب اپنی رفاقت میں نہیں رہ سکتا

کچھ بھی میں کرتا کراتا تو نہیں ہوں لیکن

باوجود اس کے فراغت میں نہیں رہ سکتا

شک مجھے یوں تو خیانت کا نہیں ہے کوئی

میں کسی کی بھی امانت میں نہیں رہ سکتا

ویسے رہنے کو تو خوش باش ہی رہتا ہوں ظفرؔ

سچ جو پوچھیں تو حقیقت میں نہیں رہ سکتا


ظفر اقبال

   6
1 Comments

Zeba Islam

14-Dec-2021 11:45 AM

Nice

Reply